"میں ٹھیک ہوں تم غلط ہو"
آج سے تقریبا بارہ ہزار سال پہلے انسان نے زراعت کرنا سیکھی، ٹھیک اس کے سات ہزار سال بعد دنیا میں مذہب کا تصور آیا جس کو آج دنیا polytheistic religions کا نام دیتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان مذاہب میں تبدیلیاں آتی گئی اور تقریباً 600-700BC میں monotheism کا تصور وجود میں آیا اور تقریباً 1400 سال پہلے اسلام وجود میں آیا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے چند سالوں بعد ہی مسلمانوں میں اختلافات نے جنم لیا۔ یوں مختلف عقائد اور اختلافات کی بنیاد پر اسلام میں فرقے جنم لینے لگے۔ یوں مسلمانوں میں لڑنے اور ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کا ایک باب شروع ہوا اور ہم نے ایک دوسرے کے خون کی ندیاں بہا دیں ۔ یوں ہر دور کے حکمران نے اپنے طاقت اور حیثیت کے حساب سے خون کی ندی میں اپنے ہاتھ صاف کیے اور ہر کسی نے اپنے عقیدے کو درست ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کی اور قلم کے بجائے ہم نے تلوار کو فوقیت دی۔ ہماری طرح مغرب نے بھی ایک دوسرے کے گلے کاٹے مگر وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی ماضی سے سیکھنا شروع کیا اور ان کی خوش قسمتی تھی کی ان کو دور اندیش حکمران ملے۔ یوں وقت کے ساتھ مغرب نے تلوار کے اوپر علم و حکمت اور سائنس کو ترجیح دی اور چاند اور سیاروں پر قدم رکھنے والی پہلی قوم بن گئی۔ مغرب کو چھوڑیں ہم نے اپنے ہمسایوں سے بھی کچھ نہیں سیکھا، آج ہمارے ہمسایہ چین کے لیے ایک تاریخی دن تھا کیوں کہ ان کا خلائی جہاز مریخ پر پہنچ چکا ہے۔
حالیہ دنوں میں گلگت میں مذہبی رہنماؤں کے بیانات اور اعتراضات ہمارے انہی تاریخی واقعات کی ایک کڑی ہے۔ آج کا نوجوان آپس میں صلح اور محبت کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ آج کا نوجوان مغرب کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہتا ہے نہ کی اپنے بھائی کا گریبان پکڑنا چاہتا ہے۔
ایسے حالات میں جب دنیا vaccine بنا کے اپنے لوگوں کو بچا رہی ہے ہمارے علماء ہمیں آ پس میں دست و گریباں کرنا چاہتے ہیں۔ "میں ٹھیک ہوں تم غلط ہو" ایسی سوچ سے باہر نکلنا ہوگا اور اپنے علاقے کے تعمیر و ترقی اتفاق اور اتحاد کے بارے میں عملی کردار ادا کرنا ہوگا یہی اصل انسانیت ہے اور یہی اصل مذہب ہے۔
~Haseeb~
No comments:
Post a Comment